مل جل کر رہنے میں فائدہ (مصباح حیات‘ لاہور)
نعیم کے گھر کے پیچھے ایک باغیچہ تھا وہاں ایک درخت کی شاخ پر دو پرندوں کے گھونسلے تھے۔ ایک چڑیاکا دوسرا طوطے کا۔ یہ چڑیا اور طوطا پاس پاس رہتے تھے مگر دونوں میں زیادہ جان پہچان نہیں تھی۔ ایک دن طوطے نے دیکھا کہ چڑیا اپنے گھونسلے میں بیٹھی رو رہی ہے کچھ دیر تک تو وہ اس کے رونے کی آواز سنتا رہا۔ آخر جب اس سے رہا نہ گیا تو وہ چڑیا کے گھونسلے کے پاس گیا اور بولا۔
بہن....! کیا بات ہے کیو ںرو رہی ہو‘ کیا میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں؟
چڑیا نے کہا بھائی....! کیا بتائوں میرے گھونسلے سے کوئی میرا بچہ اٹھا کر لے گیا ہے۔
طوطا بولا یہاں سے کون لے جاسکتا ہے اتنے برس ہوگئے ہیں یہاں رہتے ہوئے مگر آج تک ایسا نہ ہوا۔ طوطا اپنے گھونسلے میں چلا گیا لیکن چڑیا کو طوطے کی یہ بات بری لگی اور وہ دل میں بڑبڑانے لگی اور چڑے کا انتظار کرنے لگی جو بچہ ڈھونڈنے گیا تھا۔ دوسرے دن چڑیا نے دیکھا طوطا اپنے گھونسلے میں بیٹھا رو رہا ہے چڑیا اڑ کر طوطے کے پاس گئی طوطے بھائی کیا ہوا‘ کیوں رو رہے ہو؟
طوطے نے کہا....! بہن....! آج کوئی میرا بچہ اٹھا کر لے گیا ہے۔
چڑیا بولی....! بھائی گھبرائو مت اس کے پر آئے ہیں کہیں اڑ گیا ہوگا‘ چڑیا اپنے گھونسلے میں جابیٹھی طوطے کو بہت برا لگا‘ مگر کیا کرتا کل اس نے بھی چڑیا کے ساتھ ایسا ہی برتائو کیا تھا۔ اس حادثے کو گزرے بہت دن ہوگئے‘ چڑیا اور طوطے کے یہاں انڈوں سے بچے نکل آئے۔
ایک دن چڑیا اپنے گھونسلے میں اپنے بچے کو پیار کررہی تھی‘ طوطے نے چڑیا کے گھونسلے کے پاس جاکر اسے آواز دی۔
چڑیا بہن.... چڑیا بہن........! چڑیا بہت خوش ہوئی اور باہر آکر کہا.... آئو طوطے بھائی بیٹھو.... آج ہماری یاد کیسے آگئی....؟
طوطے نے کہا....! یہاں آس پاس ایک لڑکا نعیم رہتا ہے وہی ہمارے بچے چراتا ہے‘ میں نے اسے آتے جاتے اور چکر لگاتے ہوئے دیکھا ہے اس لیے پریشان ہوں۔ چڑیا بھی پریشان ہوگئی پھر دونوں نے سوچا کہ جگہ بدل دیں مگر اتنے برسوں سے وہاں رہ رہے تھے اس لیے خواہش کے باوجود وہ جگہ نہ بدل سکے۔ آخر دونوں نے فیصلہ کیا کہ جب چڑیا بچوں کیلئے دانہ لینے جائے تب طوطا دونوں گھونسلوں کی حفاظت کرے گا اور جب طوطا دانے کی تلاش میں جائے گا تب چڑیا دونوں گھونسلوں کی حفاظت کریگی۔ نعیم نے جب یہ دیکھا کہ دن میں طوطے اور چڑیا دونوں میں سے ایک نہ ایک ضرور بیٹھا رہتا ہے تو فیصلہ کیا کہ وہ بچے چرانے کا کام رات میں کرے گا۔
رات ہوتے ہی اس نے درخت پر چڑھ کر طوطے کے گھونسلے میں ہاتھ ڈالا‘ طوطا جاگ رہا تھا وہ انسان کی بوسے سمجھ گیا کہ نعیم کے سوا اور کوئی نہیں ہے اس نے نعیم کے ہاتھ پر زور سے کاٹا اور چلانے لگا تاکہ چڑیا بھی ہوشیار ہوجائے۔ نعیم کو بڑا غصہ آیا مگر کیا کرتا اس کے ہاتھ سے خون بہنے لگا‘ وہ درخت سے نیچے اتر گیا اور گھر کی طرف چل دیا۔
دوسرے دن صبح چڑیا نے طوطے سے پوچھا ”تم رات کو کیوں چلا رہے تھے؟“ طوطے نے ساری بات بتادی۔ دونوں بڑے غمگین ہوئے‘ اسی غم میں اس دن انہوں نے کچھ کھایا پیا بھی نہیں اور جب شام ہوگئی تو پھر رونے لگے۔ طوطے اور چڑیا کی رونے کی آوازیں سن کر اُسی درخت پر رہنے والی چمگادڑ کی نیند اچاٹ ہوگئی۔
اس نے پوچھا....! کیوں دوستو....! کیوں رو رہے ہو؟؟؟ تمہارا تو سونے کاوقت ہوچکا ہے۔
ہم اس لیے رو رہے ہیں........! طوطے اور چڑیا نے ساری بات بتادی۔
چمگادڑ نے تسلی دیتے ہوئے کہا گھبرائو مت میں تمہاری مدد کروں گی لیکن تمہیں بھی میری مدد کرنی ہوگی‘ بولو تیار ہو؟ چڑیا اور طوطا فوراً راضی ہوگئے تب چمگادڑ نے بتایا وہ شرارتی لڑکا مجھے بھی تنگ کرتا ہے میں دن میں جب الٹا لٹک کر سوتی ہوں تو وہ پتھر مارتا ہے چمگادڑ نے اپنے زخم دکھائے پھر کہا کہ میں رات میں تمہاری حفاظت کروں گی اوردن میں تم میری حفاظت کرنا۔
طوطے اور چڑیا نے چمگادڑ کا شکریہ ادا کیا اور مطمئن ہوکر سوگئے لیکن ابھی رات کے نوہی بجے ہونگے کہ نعیم بڑی آہستگی سے باغ میں داخل ہوا اور درخت پرچڑھنے لگا۔ طوطے اور چڑیا کی آنکھ کھل گئی چمگادڑ نعیم کی حرکتیں دور سے دیکھ رہی تھی آج نعیم اپنے ساتھ ڈنڈا لایا تھا کہ طوطے کی مرمت کرسکے جس نے اسے کاٹ کھایا تھا لیکن وہ ابھی طوطے پر ڈنڈا چلا بھی نہیں پایا تھا کہ چمگادڑ اس کی ناک پر چپک گئی‘ نعیم زور زور سے چلانے لگا۔
مگر وہاں کون تھا جو اس کی سنتا۔ نعیم جیسے تیسے درخت سے نیچے اترا اور گھرکی راہ لی۔ طوطا اور چڑیا اپنے اپنے گھونسلوں میں بیٹھے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد چمگادڑ لوٹ آئی اس نے بتایا کہ نعیم کے گھر والوں کی آنکھ کھل گئی اور اتنی رات گئے باہر جانے پر نعیم کو خوب سزا بھی ملی۔ چمگادڑ نے طوطے اور چڑیا کو خوشی سے تسلی دیتے ہوئے کہا....! اب وہ ہماری طرف رخ بھی نہیں کرے گا۔ مل جل کر رہنے میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔
بچو....! اگر ہم بھی ان پرندوں کی طرح مل جل کر رہیں تو ہم بھی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں اور ہر پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔
اور دیکھا بچو....! دوسرا فائدہ مل جل کر رہنے کا یہ بھی ہوگا کہ جو بچے ابھی چھوٹے ہیں وہ جب بڑوں کو ایک دوسرے کے دکھ درد میں ساتھی بنتا دیکھیں گے تو وہ بھی بڑے ہوکر آپس میں یہی معاملہ کریں گے‘ ہم بھی طے کرلیں کہ ایک دوسرے کے کام آئیں گے مل جل کر رہیں گے اس سے کسی تیسرے شخص کو ہمیں نقصان پہنچانے کی ہمت نہیں ہوگی اور بچو آپس میں مل جل کر رہنے کا ایک کامیاب طریقہ یہ بھی ہے کہ چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے ناراض نہ ہوا جائے بلکہ بات صاف کرکے دل صاف کرلیا جائے ایک دوسرے کی شکایتیں نہ لگائی جائیں نہ ہی یہ ارادہ کیا جائے کہ بدلہ لوں گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں